پرانی یادیں پرانی باتیں
*وہ دن بھی کیا دن تھے۔* معصومیت بھرے پرانے دور میں *الماریوں میں اخبارات بھی انگریزی کے بچھائے جاتے* تھے کہ ان میں مقدس کتابوں کے حوالے نہیں ہوتے۔ چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی *سنا سنایا خوف* آڑے آجاتا تھا۔۔۔ *زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی* تھیں تو ہوش و حواس اڑ جاتے تھے کہ *قیامت والے دن آنکھوں سے اُٹھانی* پڑیں گیں۔ *گداگروں کو پورا محلہ جانتا* تھا اور گھروں میں ان کے لیے خصوصی طور پر *کھلے پیسے* رکھے جاتے تھے۔ *یرقان یا شدید سردرد* کی صورت میں مولوی صاحب *ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دم* کردیا کرتے تھے اور بندے بھلے چنگے ہوجاتے تھے۔ گھروں میں *خط* آتے تھے اور جو لوگ پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ *ڈاکئے سے خط پڑھواتے* تھے ۔ ڈاکیا تو گویا *گھر کا ایک فرد* شمار ہوتا تھا ‘ خط لکھ بھی دیتا تھا‘ پڑھ بھی دیتا تھا اور لسی پانی پی کر سائیکل پر یہ جا وہ جا۔ *امتحانات کا نتیجہ* آنا ہوتا تھا تو *’نصر من اللہ وفتح قریب‘* پڑھ کر گھر سے نکلتے تھے اور خوشی خوشی *پاس ہوکر* آجاتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سمجھ کر *’’اوکے‘‘* نہیں *’’ٹھیک ہے‘‘* کہا کرتے تھے۔ موت والے گھر میں سب م...